اجتماعی زندگی یا انفرادی؟

ساخت وبلاگ

اجتماعی زندگی یا انفرادی؟

اسلام کی نظر میں کس کی اہمیت زیادہ ہے؟

آیا انسان کو اجتماعی طور پر معاشرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے یا انفرادی طور پر معاشرے سے کٹ کر؟ اسلام کے نزدیک کس کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے؟ کیا ممکن ہے انفرادی زندگی بھی قدر وقیمت پیدا کر لے؟

ان سوالوں کا جواب دینےسے پہلے ضروری ہے یہ طے کرلیں کہ کیا اجتماعی زندگی گزارنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے؟ کیا انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ انفرادی طور پر اپنی زندگی گزارلے؟ چونکہ اگرمان لیں کہ  انسان اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہے تو اس فعل کے اچھے یا برے ہونے کا  کوئی مطلب نہیں۔ اچھا یا برا صرف اختیاری افعال میں معنی رکھتا ہے۔

بعض مغربی محققین قائل ہیں کہ انسان اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔  انسان کی طبیعت بھی اسے اجتماعی زندگی پر ابھارتی ہے۔ بعض نےیہاں تک کہا ہے کہ معاشرے کے اندر انسان کی مثال جسم کے اندر ایک سیل(خلیے) کی ہے۔ فرد معاشرے کے اندر اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتا۔ فرد کی شناخت اور حقیقت اسی معاشرے سے وابستہ ہے۔ پس فرد کا وجود اور فرد کی شناخت دونوں معاشرے کے تابع ہیں۔  ہاں بعض نے صرف اس حد تک اعتراف کیا ہےکہ  معاشرے میں فرد کو ایک خاص حد تک آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو اپنے آپ کو معاشرے سے جدا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر معاشرے سے جدا کر لے گا تو وہ مر جائے گا۔بالکل اسی طرح  جیسے ایک سیل کا اپنےآپ کو جسم سے جدا کرنا اس کی موت ہے۔یا جیسے درخت کا ایک پتہ ، کہ  پتوں کے اجتماع  اور درخت سے جدائی اس کی موت ہے۔ فرد کا رشتہ معاشرے سے اسی قسم کا ہے۔ معاشرے سے جدائی فرد کی موت ہے۔

یہ انتہائی افراطی نظریہ ہے اور اسلام اس نظریے کی ہرگز حمایت نہیں کرتا۔ یہ نظریہ اسلامی بنیادی اصولوں سے میل نہیں کھاتا۔اس نظریے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا معاشرہ میں رہنا اس کی مجبوری ہے اور اس حوالے سے انسان کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ جس کام پر انسان کو اختیار ہی نہیں اس  حوالے سے انسان کو کوئی حکم بھی نہیں دیا جا سکتا۔ پس معاشرے میں رہنا نہ اچھا قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ برا۔

 لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے اختیار دے کر خلق کیا ہے۔ انسان کو سوچنے کی طاقت  اور اچھے اور برے میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس راستے کو اختیار کرتا ہے۔ہرگز انسان معاشرے  کے بدن میں میں ایک سیل کی مانند نہیں کہ اس سے جدائی انسان کی موت ہو۔ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنا انسان کے اختیار میں ہے۔  انسان اپنے اختیار سے چاہے تو اجتماعی اور چاہے تو انفرادی زندگی  اختیار کر سکتا ہے۔ پس  اجتماعی یا انفرادی زندگی گزارنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اس حوالے سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔

ہاں البتہ مختلف کاموں کا انسان کے اختیار میں ہونا مختلف اندازوں سے ہے۔ ممکن ہے ایک کام مکمل طور پر انسان کے اختیار میں ہو اور ایک کام ایک حد تک۔  جو کام جتنا اختیارمیں  ہو اسی اندازے سے اس کا حساب ہوگا۔اجتماعی زندگی بھی جس حد تک انسان کے اختیار میں ہے اسی اندازے سے اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ لگا سکیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارنا کس حد تک اہمیت رکھتا ہے؟ اس کی کیا قدر وقیمت ہے؟ اس کے مقابلے میں معاشرے سے کنارہ کشی اور رہبانیت کا حکم اسلامی اخلاقی نظام میں کیا ہے؟

جواب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارنا یا معاشرے سےروگردانی اور  کنارہ کشی ان دونوں میں سے کوئی بھی خود سے (فی ذاتہ) کوئی اہمیت یا قیمت  نہیں رکھتا۔ اس کام کو کچھ اور معیارات اور پیمانوں پر ناپنا ہوگا تاکہ اس کی قدر و قیمت  جانچ سکیں۔اس حوالے سے تین اہم عوامل کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:

۱۔ فطری عوامل: مثلا انسان غریزی طور پر جنس مخالف کی طرف مائل ہوتا ہےاور اس کے ذریعے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے اور یہ کام معاشرے سے کٹ کر اکیلے میں رہ کر ممکن نہیں۔خاندانی زندگی، معاشرتی زندگی کی پہلی سیڑھی ہے۔ پس ممکن ہے انسان کی فطری خواہشات معاشرتی زندگی کے لیے سبب بنیں۔

۲۔ عاطفی عوامل: انسان کے اندر ایک خاص قسم کا جذبہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم نوع افراد کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ صحراء میں اگر کوئی انسان نظر آئے تو اس کی طرف دل مائل ہوتا ہے۔ انسان ایک دوسرے سے انس محسوس کرتا ہے خصوصا اگر اپنے خاندان کے افراد ہوں۔ یہ جذبہ معاشرتی زندگی کی تشکیل میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

۳۔ عقلی عوامل: انسان اپنی عقل کے ذریعے سمجھ لیتاہے کہ تنہائی میں زندگی گزارنا انتہائی سخت ہے۔ بہت ساری ضروریات، چاہے وہ مادی ضروریات ہوں یا معنوی،  ایسی ہیں جن میں وہ دوسروں کا محتاج ہے۔ بہت سارے کام ایسے ہیں جن کو وہ اکیلے انجام نہیں دے سکتا۔ لہذا عقل فیصلہ کرتی ہے کہ اجتماعی زندگی گزارنا چاہیے چونکہ اجتماعی زندگی کے فوائد زیادہ ہیں اور اس کے بغیر ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔

پس یہ مختلف عوامل ہیں جن کی بنا پر انسان اجتماعی زندگی کو اپنے اختیار کرتا ہے۔ البتہ اجتماعی زندگی کے حوالے سے ان میں سے ہر ایک کا کردار برابر اور ایک جیسا نہیں ہے۔

اسلام کی نظر میں اجتماعی زندگی کی قدر و قیمت اور اہمیت  کا اندازہ لگانے کے لیے ان عوامل کو دیکھنا انتہائی اہم ہے جن کی بنا پر فرد اجتماعی زندگی اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس حوالے سے زمان و مکان کی شرائط، اجتماعی صورت حال ، مختلف محرکات،اور انسان کی نیت  وغیرہ پرکھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے اجتماعی زندگی کو چنا گیا ۔ پس ہم کلی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اجتماعی زندگی اچھی ہے یا بری؟ یا انفرادی زندگی اچھی ہے یا بری؟

اسلام کی نظر میں تمام اخلاقی مسائل میں قدر وقیمت کا اندازہ لگانے کا بہترین معیار نیت(کام کا محرک) ہے۔  ممکن ہے ایک ہی کام اگر ایک نیت سے انجام دیں تو اچھا ہو اور اگر یہی کام دوسری نیت سے انجام دیں تو برا بن جائے۔  کام کی قیمت نیت پر منحصر ہے۔ پس نیت کو دیکھے بغیر کام کی قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اجتماعی زندگی بھی اسی طرح ہے۔

البتہ کام کی قدر وقیمت صرف نیت پر منحصر نہیں ۔ ممکن ہے کسی کام کے حوالے سے ایک شخص کی نیت اور اس کا ہدف  بالکل نیک ہو۔ لیکن اسے انجام دینے کےصحیح طریقے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے طریقے سے انجام دے کہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مادی و معنوی ضرر کا باعث بنے۔لہذا ہدف  اور نیت تک پہنچنے کا طریقہ بھی نیک ہونا چاہیے۔

لہذا شرائط، حالات، نیت، محرکات وغیرہ کے تناظر میں ممکن ہے کبھی اجتماعی زندگی مطلوب ہو اور عین ممکن ہے کبھی انفرادی زندگی اور معاشرے سے جدائی بھی مطلوب اور مفید واقع ہوجائے۔

قرآن اور انفرادی زندگی:

باوجود اس کے کہ اسلامی تعلیمات میں اجتماعی زندگی کی بہت زیادہ اہمیت بیان ہوئی ہے اور بہت ساری نیکیاں ایسی ہیں جن کا وجوداور تحقق معاشرے کے بغیر ممکن نہیں، لیکن معاشرے کی یہ اہمیت اور قیمت ہمیشہ کے لیے اور بغیر شرط وقید کے نہیں ہے۔ بعض اوقات ممکن ہے معاشرے سے کٹنا ہی انسان کے لیے مفید ہو۔

لہذا قرآن مجید میں بعض جگہوں پر معاشرے سے ہجرت اور الگ زندگی گزارنے کی تعریف کی گئی ہے۔ بطور نمونہ:

۱۔ اصحاب کہف کا قصہ۔ کہ چند جوان ہیں جو معاشرے کی خرابی سے تنگ آکراور اصلاح کو نا ممکن سمجھ کر معاشرے سے الگ ہوتے ہیں اور ایک غار میں پناہ لیتے ہیں۔ان جوانوں نے جان لیا تھا کہ معاشرے میں فساد اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے اب اس معاشرے سے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ قرآن مجید نے ان کی تعریف کے پیرائے میں کہا ہے: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِه. (کهف :16)

اور اس وقت کو یاد کرو جب تم لوگوں (اصحاب کہف) نے ان (معاشرے) سے جدائی اختیار کر لی اور وہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ پس انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ تمہارے لیے تمہارا پروردگار اپنی رحمتیں پھیلاتا ہے۔

۲۔ دوسرا نمونہ اس حوالے سے حضرت ابراہیم کی ذات ہے۔معاشرے نے ان کی بات نہیں سنی۔ انہیں آگ میں پھینکا  گیا اور خداوند متعال نے معجزے سے ان کی جان بچائی۔ جب اس قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تب انہوں نے نمرود کےشرک آلود معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کر نے کا فیصلہ کیا۔ قرآن مجید نے ان کے اس فیصلے کی تعریف کی ہے اور اس کے بعد ہی ان کے لیے فرزند( حضرت اسحاق) کی بشارت دی گئی ہے۔(ملاحظہ ہو سورہ مریم آیت ۴۹)

۳۔ تیسرا نمونہ حضرت عیسی کی ذات ہےجب انہوں نے رہبانیت اختیار کی۔ اس زمانے کے حالات کچھ ایسے تھےاور معاشرہ اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ حضرت عیسی کو اپنے دین کی حفاظت کی خاطر معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کر نی پڑی۔ البتہ انہیں امید تھی کہ وہ انہی حالات میں بھی گوشہ وکنار سے مختلف افراد کی ہدایت اور اصلاح کے ذریعے ایک تحریک کی بنیاد رکھیں گے اور دوبارہ پلٹ کر اسی معاشرے کی اصلاح کی کوشش کریں گے۔

قرآن اور اجتماعی زندگی:

جہاں پر خدا کی خوشنودی معاشرے میں رہنے میں ہو ااس وقت اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا۔ انسان کے اکثر کمالات معاشرے میں رہنے سےہی حاصل ہوتے ہیں۔ معاشرے سے کٹنے پر انسان کے لیے بہت ساری نیکیوں کے راستے خود بخود بند ہوجاتے ہیں۔ البتہ اجتماعی زندگی کی قیمت اور اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ اجتماعی زندگی ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ اس میں رہ کر انسان اپنی اور معاشرے کی مادی و معنوی ترقی کا سامان فراہم کر تا ہے۔ اور اگر یہی معاشرے فرد کی ترقی اور کمال میں رکاوٹ ہو تو اس معاشرے سے بچنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔

سب سے آئیڈیل معاشرہ جس کی بنیاد حضرت صاحب الزمان (علیہ السلام) رکھیں گے اس کے حوالے سے بھی قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ وہ معاشرہ اس لیے قائم ہوگا تاکہ اس میں آرام سے خدا کی عبادت کی جا سکے اور شرک کی رگوں کو کاٹا جا سکے۔ وعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ .... يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا.(نور :55)

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین پر خلیفہ بنایا جائے گا۔۔۔ تاکہ وہ لوگ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

 

خلاصہ:

یقینا اسلام میں اجتماعی زندگی کی اہمیت بہت زیادہے اور بہت سارے انسانی کمالات ایسے ہیں جن کا حصول اور ان کی  ترقی معاشرے میں زندگی پر ہی موقوف ہے، لیکن معاشرتی زندگی کی قدر وقیمت مطلق اور بغیر قید وشرط کے نہیں ہے۔ ان شرائط  کے علاوہ انسان کی نیت کا اس زندگی کی قدر وقیمت کی تعیین میں اہم حصہ ہے۔

انسان اپنے اختیار سے اور عاقلانہ طور پر اجتماعی زندگی کو انتخاب کرتا ہے۔ اس زندگی کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانے سے پہلے انسانی زندگی کے ہدف کو معین کرنا ہوگا۔ اگر ہم انسانی زندگی کے ہدف کو ابدی سعادت اور قرب پروردگار قرار دیتے ہیں تو اس ہدف تک پہنچنے میں اجتماعی زندگی جس قدر مددگار ہوگی اسی حساب سے اس کی قدر وقیمت بھی ہوگی۔

 

(استفادہ از کتاب اخلاق در قرآن، استاد مصباح یزدی دامت برکاتہ، ج ۳، ص ۲۷ تا ۴۰)


برچسب‌ها: اجتماعی زندگی, انفرادی زندگی, مصباح یزدی امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 109 تاريخ : جمعه 6 بهمن 1396 ساعت: 19:38