امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت

ساخت وبلاگ
ارشاد ہوا: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"مجھے پکارو! میں تمہیں جواب دوں گا۔ جو لوگ میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں وہ رسوا ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔خدا سے نہ مانگنا اور اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنا استکبار ہے، عبادت سے استکبار۔ لہذا دعایعنی خدا سے مانگنااور اس سے مدد طلب کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اپنے فقر، اپنی نیاز اور ضرورت کا اعلان سب سے بڑی عبادت ہے۔کوئی بھی دوسری حقیقت (اور وجود) ایسا نہیں ہے جس کی طرف مخلوقات محتاج ہوں۔ کوئی دوسرا الٰہ اور معبود نہیں ہے۔ معبود یعنی وہ ذات جس کی طرف باقی تمام مخلوقات محتاج ہیں۔ اس کے اسماء حسنیٰ، کائنات اور اس میں موجود تمام فقیروں کی ضرورت پورے کرتے ہیں۔ قرآن نے کہا: "أَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللَّهِ" (تم سب خدا کی طرف محتاج ہو۔) ایسی ذات معبود ہے۔ (اسی وجہ سے کہا گیا) "وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ" اللہ بے نیاز ہے جس کی حمد اور تعریف کی جانی چاہیے۔ آیت الله میرباقریتأملات قرأنی + لکھاری عباس حسینی در 11 Apr 2023 و ساعت 1:27 PM | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 46 تاريخ : شنبه 14 مرداد 1402 ساعت: 14:34

بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ توکل کا راستہ تسبب(اسباب اور وسائل سے استفادے) سے الگ ہے۔گویا جہاں کسی کام کے لیے درکار اسباب اور عوامل فراہم ہوں وہاں توکل کی ضرورت نہیںلیکن جہاں یہ عوامل و اسباب میسر نہ ہوں وہاں خدا پر توکل اور اعتماد کرنا چاہیے۔دعا اور توسل کے بارےمیں یہی گمان کرتے ہیںدعا اور توسل کی جگہ وہاں ہے جہاں عادی وسائل اور مادی اسباب فراہم نہ ہوں۔یہ دونوں گمان باطل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کچھ امور کو عادی اسباب کے ساتھ انجام دےاور کچھ کاموں کو توکل، توسل اور دعا کے ذریعے انجام دے۔انسان کے تمام امور میں ان دونوں چیزوں کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔جہاں انسان وسائل اور اسباب کے ساتھ کام کر رہا ہو وہاں بھی خدا پر توکل ضروری ہےہمارے تمام کاموں میں توکل، توسل اور دعا ہمیشہ اور ہر جگہ موجود ہونا چاہیے۔ آیت اللہ جوادی آملیعمل عرفانی در پرتو علم وحیانی + لکھاری عباس حسینی در 11 Apr 2023 و ساعت 1:29 PM | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 46 تاريخ : شنبه 14 مرداد 1402 ساعت: 14:34

خرگوش اور کچھوے کی کہانی آپ نے بہت بار سنی ہوگی۔ آج اسے کچھ اور انداز میں بیان کریں گے۔پہلا منظر:خرگوش اور کچھوے کی دوڑ لگی۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری پر مغرور تھا۔ فورا کچھوے سے آگے نکل گیا۔ کہا ابھی تو کچھوا بہت دور ہے۔ کچھ دیر کے لیے درخت کے نیچے سو جاتا ہوں۔ گہری نیند آئی اتنے میں کچھوا آگے نکل گیا اور مقصد تک پہنچ گیا۔ جب خرگوش جاگا اور بھاگ بھاگ کر مقصد تک پہنچا تو کچھوا پہلے سے وہاں موجود تھا۔ خرگوش کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔سبق: کبھی غرور نہیں کرنا چاہیے۔دوسرا منظر:ایک دفعہ پھر سے خرگوش اور کچھوے کی دوڑ لگی لیکن اس دفعہ شرط یہ لگائی کہ راستہ کوئی اور ہوگا۔ اب کی بار خرگوش بہت محتاط تھا۔ دوڑ شروع ہوئی۔ جب خرگوش آگے نکلا تو راستے میں ایک جگہ پانی تھا جسے عبور کرنا خرگوش کے لیے مشکل تھا۔ وہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بھاگتا رہا۔ کچھوا جب وہاں پہنچا وہ آسانی سے پانی عبور کر گیا اور منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ خرگوش کو پھر سے شرمندگی اٹھانی پڑی۔سبق: اپنی صلاحیت اور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسروں کو چیلنج دینا چاہیے۔تیسرا منظر: پھر سے خرگوش اور کچھوے کی دوڑ لگی۔ راستے میں ایک جگہ پھر سے پانی تھا۔ اب کی بار کچھوے نے خرگوش سے کہا: لیجیے میں تمہیں اپنی پیٹھ پر اٹھاتا ہوں۔ خرگوش نے کچھوے کی پیٹھ پر بیٹھ کر نہر پار کیا۔ دونوں ایک ساتھ مقصد تک پہنچے۔سبق: ایک دوسرے کی مدد کریں تو سارے منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ + لکھاری عباس حسینی در 16 May 2023 و ساعت 11:18 AM | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 49 تاريخ : شنبه 14 مرداد 1402 ساعت: 14:34

کسی کامل ولی کے بارے میں مشہور تھا وہ انگلی لگا کرپتھر کو سونا بنا دیتے ہیں‘ یہ خبر اڑتی اڑتی کسی انتہائی غریب شخص تک پہنچ گئی اور وہ دھکے ٹھڈے کھاتے کھاتے اس ولی تک پہنچ گیا۔باباجی اس وقت پہاڑی راستے پر واک کر رہے تھے‘ انھیں اپنے پیچھے کسی کے پائوں کی آواز آئی‘ وہ مڑے اور سامنے وہ ضرورت مند کھڑا تھا‘ اس نے باباجی کے پائوں پکڑ لیے اور اپنی غربت کا رونا ‘رونا شروع کر دیا‘ باباجی نے ہنس کر پوچھا ’’میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘ ضرورت مند نے ایک پتھر اٹھایا اور باباجی کو پکڑا کر بولا ’’آپ اسے سونے کا بنا دیں‘یہ میرے لیے کافی ہوگا‘‘۔باباجی نے پتھر کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھوا اور وہ آناً فاناً سونے میں تبدیل ہو گیا‘ ضرورت مند نے باباجی کا شکریہ ادا کیا اور واپس چل پڑا‘ باباجی نے دوبارہ واک شروع کر دی‘ تھوڑی دیر بعد انھیں محسوس ہوا ان کے پیچھے اب بھی کوئی شخص چل رہا ہے‘ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو وہی ضرورت مند ان کے پیچھے کھڑا تھا۔بزرگ نے حیرت سے پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ بولا ’’حضور سونے کا یہ پتھر میرے لیے کافی ہے لیکن میرے بعد میرے بچوں کا کیا بنے گا ؟آپ تھوڑی سی مزید مہربانی فرما دیں تاکہ میرا خاندان بھی خوش حالی دیکھ سکے‘‘ بزرگ نے راستے کے ساتھ موجود چٹان کو چھوا اور وہ بھی چند سیکنڈ میں سونے میں تبدیل ہو گئی‘ بزرگ نے اس کے بعد ہنس کر کہا ’’لے بھئی کرم داد یہ دولت اب تمہاری سات نسلوں کے لیے کافی ہے‘‘ وہ یہ کہہ کر دوبارہ آ گے چل پڑے لیکن تھوڑی دیر بعد انھیں پھر محسوس ہوا وہ ضرورت مند ابھی تک ان کے پیچھے چل رہا ہے۔بزرگ نے درشت لہجے میں پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ضرورت مند لجاجت سے بولا ’’جناب میں دنیا کا سب سے امیر شخص بننا چاہتا ہوں‘ آپ نے اتنی مہربانی فرما دی ہے تو ذرا امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 75 تاريخ : دوشنبه 7 فروردين 1402 ساعت: 12:36

ذکرِ الہی کی نشانیخداوند متعال سورہ بقرہ کی آیت 152 میں فرماتا ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔ انسان کیسے مقام ذکرِ الہی پر فائز ہو سکتا ہے؟ کیسے معلوم ہو کہ ہم خدا کی یاد سے سرشار ہیں یا نہیں؟اہلِ معرفت نے اس حوالے سے ایک نشانی ذکر کی ہے جس سے معلوم ہوگا کہ انسان خدا کے ذکر اور یاد میں مشغول ہے یا نہیں؟ اگر ذکر کے اوقات میں انسان یہ محسوس کرے کہ کوئی ہے جو اس کا ہم نشین ہے۔ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ حقیقت میں حالِ ذکر میں ہے۔ بعض روایات میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ جب حضرت موسیؑ نے خدا سے مناجات کرنا چاہا تو پوچھ لیا: اے میرے رب! تو نزدیک ہے کہ میں مناجات کروں؟ یا دور ہے کہ میں آواز لگاوں؟ خداوند متعال نے موسیؑ کی طرف وحی کی: اے موسیؑ، میں اس کا ہم نشین ہوں جو میرا ذکر کرے۔ پس اگر اس خدا کی ہم نشینی کی حالت کو اگر کوئی درک کرے تو وہ حقیقت میں حالِ ذکر میں ہے ورنہ نہیں۔ + لکھاری عباس حسینی در 6 Feb 2023 و ساعت 11:27 PM | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 92 تاريخ : پنجشنبه 20 بهمن 1401 ساعت: 15:55

کونسی لذت؟سید عباس حسینیہر انسان لذت چاہتا ہے۔ کونسا انسان ایسا ہے جسے لذت پسند نہ ہو؟ ہمارا کھانا، پینا، ملنا جلنا، سیروتفریح، ازدواجی تعلقات یہاں تک کہ عبادت تک ہر کام اور فعل لذت کی خاطر ہے۔ انسان اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت سمیٹنا چاہتا ہے۔ مغربی مادر پدر آزاد لبرل نظام کا نعرہ ہی یہی ہے کہ جتنا ہو سکے اس دنیا میں موج مستی کرو گویا انسان کی زندگی کا مکمل ہدف ہی یہی ہے۔ مغربی معاشرے میں اکثر مرد اور عورت پورا ہفتہ کما کر چھٹی کے دن سارا پیسہ موج مستی میں اڑاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اپیکور (Epicurus) کا سارا فلسفہ بھی اسی نظریے پر قائم تھا جس کے مطابق انسانی زندگی کا ہدف لذت اور خوشی تک پہنچنا ہے۔ یہی وجہ ہے اس فلسفی نظریہ (Epicureanism) کو عیش ونوش کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ البتہ خود اپیکور کے مطابق عارضی لذت کافی نہیں ہے بلکہ انسان کو ایسی لذت کے پیچھے ہونا چاہیے جو پوری زندگی اس کے ساتھ رہے۔ اسلام حلال اور جائز لذت کا مخالف نہیں۔ اکثر لوگوں کی عبادت بھی لذت ہی کی خاطر ہے، چاہے وہ جنت کی لذت کا حصول ہو یا جہنم کے عذاب سے نجات کی لذت۔ قرآن نے بھی کہا ہے کہ اس دنیا کی زینتوں کو کس نے حرام کیا ہے؟ (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ) قرآن نے مومنین کے لیے آخرت اور بہشت میں حاصل ہونے والی لذتوں کی بھی پوری ایک فہرست بیان کی ہے۔ اصل مسئلہ دو چیزوں میں ہے:۱۔ خداوند متعال حکیم ذات ہے لہذا خود انسان اور معاشرے کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو دیکھتے ہوئے لذتوں کو منظم کرنے کے لیے اسلام ایک مکمل ضابطہ دیتا ہے اور لذتوں کو جائز و ناجائز اور حلال وحرام میں تقسیم کرتا ہے۔ وہ لذتی امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 98 تاريخ : پنجشنبه 6 بهمن 1401 ساعت: 2:12

دل کے خریدارایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے۔ ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا۔ اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے۔بادشاہ نے کہا: تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا فائدہ؟بوڑھی عورت نے جواباً کہا: جو ہم نے پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے!بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا: اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں۔جب بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی۔ بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے!بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا: اس کو مزید چار سو دینار دئے جائیں۔جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی!بادشاہ نے پوچھا: اب کیوں مسکرائی؟بوڑھی عورت نے کہا: زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں۔بادشاہ نے پھر حکم دیا: اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں۔ یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا۔وزیر نے کہا: حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟بادشاہ نے کہا: اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہو جاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں۔حاصل کلاماچھی بات دل موہ لیتی ہے۔ نرم رویہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔ حکمت بھرا جملہ بادشاہوں کو بھی قریب لے آتا ہے۔اچھی بات دنیا میں دوست بڑھاتی اور دشمن کم کرتی ہے اور آخرت میں ثواب کی کثرت کرتی ہے۔آپ مال و دولت سے ساما امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 108 تاريخ : پنجشنبه 6 بهمن 1401 ساعت: 2:12

اگر کتا آپ کو کاٹے تو کیا آپ بھی کتے کو کاٹیں گے؟ایک کہانی ہے۔ سعدی نے بوستان میں شعر کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ بیان کرتا ہوں۔ کہتے ہیں:جھونپڑی میں رہنے والا ایک صحرائی شخص تھا۔ ایک دن صحراء میں جنگلی کتا نکل آیا۔ کتے نے اس صحرائی کو پاوں سے کاٹ لیا۔ بہت زیادہ غمزدہ ہوا، مارنے پر کتا بھاگ گیا۔ گھر واپس آیا۔ غمزدہ حالت میں رو رہا تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ بیٹی نے کہا: "بابا، یہ سب آپ کی اپنی غلطی ہے۔ جب کتا آپ کو پاوں سے کاٹ رہا تھا اسی وقت آپ بھی اپنے دانتوں سے کتے کو پاوں سے کاٹ لیتے؟ اب ایسے ہی آپ دکھ اور درد کا اظہار کر رہے ہیں؟"باپ نے کہا: "اگر ساری دنیا بھی مجھے دے دی جائے، اپنے دانتوں کو کتے کے پاوں سے آلودہ نہیں کروں گا۔"اجتماعی مسائل بھی اسی طرح ہیں۔ اگر بات چیت میں، یا کسی معاملے میں، کوئی شخص آپ کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو آپ بھی اسی کام کا تکرار مت کیجیے۔ آپ اپنی عفت اور شرافت کا لحاظ کیجیے۔ شرعی احکام اور اقدار کو مدنظر رکھیں۔ اس نے تو برا کام کیا ہے۔ آپ خود کہہ رہے ہیں اس کا کام برا تھا۔ پس آپ اس برے کام کا تکرار کیوں کریں؟ فرشتے اس کو جواب دے دیں گے۔ آیت الله ناصری + لکھاری عباس حسینی در 4 Jan 2023 و ساعت 2:4 PM | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 96 تاريخ : پنجشنبه 6 بهمن 1401 ساعت: 2:12

جب ہم کسی بچے کو تیراکی سکھانا چاہتے ہیں پہلے اسے ایک چھوٹے سے تالاب میں چھوڑتے ہیں تاکہ وہ اس چھوٹی سی کم گہرائی والی جگہ پر ایک استاد کی رہنمائی میں تیراکی سیکھ لے۔ جب بچہ اس جگہ تیراکی سیکھ لیتا ہے تب ہم اسے سمندر میں بھی (مثلا) تیراکی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ انسانی زندگی میں تمرین اور مشق ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ روزہ ، محرمات، واجبات، نفسانی خواہشات اور شہوات سے مقابلے کی ایک مشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن فرماتا ہے: "وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ (بقره، ۴۵)"  یہاں صبر سے مراد روزہ ہے۔ یعنی اگر چاہتے ہو اجتماعی زندگی میں حرام چیزوں کے مقابلے میں کامیاب ہو جاؤ تب روزے سے مدد لو۔ لہذا گر انسان ایک چھوٹے سے تالاب میں، سمندر سے لڑنے کی مشق کرتا ہے اسی طرح وہ ماہ مبارک رمضان میں، معاشرے کے سمندر سے مقابلے کی مشق اور تمرین کرتا ہے۔ رمضان میں ہم مشق کرتے ہیں تاکہ اس کے بعد ہم معاشرے میں جائیں اور اگر حرام چیزیں دیکھیں تو ان سے اجتناب کریں۔ شہوات کو دیکھیں تو ان سے پرہیز کریں۔ روزے کا ہدف یہ ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان معاشرے کے اندر حاضر رہے لیکن منحرف نہ ہو۔ معاشرے سے کٹ جانا اور گوشہ نشینی اختیار کرنا کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔ امام موسی صدربرای زندگی + لکھاری عباس حسینی در 21 Apr 2022 و ساعت 12:44 | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 131 تاريخ : شنبه 11 تير 1401 ساعت: 15:45

ماہ رمضان میں صبح تک بیدار رہتے تھے۔ ان کی عادت تھی دعائے سحر گھر کے افراد کے ساتھ ملک کر پڑھتے تھے۔علامہ حسن زادہ آملی لکھتے ہیں: جب میں حضرت علامہ طباطبائی کے پاس پہنچا اور ان سے نصیحت طلب کی تو انہوں نے فرمایا: "آغا، امام باقرؑ کی دعائے سحر کو کبھی مت بھولنا۔ اس دعا میں (خدا کے) جمال، جلال، عظمت، نور، رحمت، علم اور شرف سب جمع ہیں لیکن حور وغلمان کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر بہشت شیرین ہے تو بہشت کا خالق اس سے زیادہ شیرین ہے۔"علامہ طباطبائی کی عادت تھی کہ ضریحِ حضرت فاطمہ معصومہؑ پر بوسہ دے کر اپنی افطاری کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد گھر واپس آتے اور کھانا کھاتے۔ رمضان کی راتوں میں اگر کہیں مجالس وغیرہ ہو تو ان میں شرکت کیا کرتے۔ بعض اوقات اپنے پورے وجود سے گریہ کرتے گویا کہ ان کا سارا بدن اس دوران لرز رہا ہوتا تھا۔ + لکھاری عباس حسینی در 21 Apr 2022 و ساعت 12:47 | امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...ادامه مطلب
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 136 تاريخ : شنبه 11 تير 1401 ساعت: 15:45