ابن تیمیہ کا اشکال اور اس کا جواب

ساخت وبلاگ

ابن تیمیہ کا اشکال اور اس کا جواب

 

ابن تیمیہ، امامت کا شمار اصول اور عقیدے میں ہونے پر اشکال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلامی عقیدے کے اہم ترین ارکان تین ہی ہیں: توحید، نبوت اور قیامت (معاد)۔ لہذا امامت کا شمار بنیادی اصول اور عقیدے میں نہیں ہوتا۔ اور پھر اگر امامت اصول میں سے ہے تو قرآن مجید اور رسول گرامی اسلامﷺ کو بار بار اس اصل کے حوالے سے تاکید کرنی چاہیے تھی اور اس اصل پر اعتقاد ایمان کے ارکان میں سے ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے اپنے دور میں بھی اور ان کے بعد بھی کبھی بھی امامت کا عقیدہ ایمان کے بنیادی ارکان میں سے نہیں رہا۔

یہ ابن تیمیہ کا اشکال ہے۔

 

اس کا جواب ہم چند نکات میں دیتے ہیں:

 

۱۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دین کے تین بنیادی ترین عقیدے توحید، نبوت اور معاد ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تین عقیدوں کے مسلم اور ضروری ہونے کے بعد اگلا اہم ترین عقیدہ کونسا ہے؟ شیعہ سمجھتے ہیں کہ امامت، نبوت کے بعد کا دینی نظام ہے، جو ایک لحاظ سے ہدایت کے سلسلے میں نبوت کا ہی استمرار اور تسلسل ہے، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ نبی پر اپنے خاص معنی میں وحی اترتی تھی، جبکہ ختم نبوت کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا ہے۔ امام، در حقیقت دین کی طرف ہدایت، قرآن و حدیث کی تشریح اور دین و دنیا کے امور میں ہدایت و سرپرستی اور عملی قیادت اور لیڈر شپ میں نبی کا جانشین ہوتا ہے۔

 

۲۔ اگر امامت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس کا تعلق کسی عقیدے سے ہے ہی نہیں، تو کیوں بڑے بڑے صحابہ رسول اللہﷺ کا جنازہ چھوڑ کر ایک فرعی کام (اہل سنت کے عقیدے کے مطابق) میں مشغول ہوگئے؟ کیوں اس مسئلے کے حوالے سقیفہ بنی ساعدہ میں صحابہ کی آوازیں بلند ہوئیں اور کیوں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکلیں؟

 

۳۔ تمام اہل سنت محققین نے امامت کی تعریف میں "نبی کے جانشین" ہونے کو اخذ کیا ہے۔ نبی کا جانشین دینی اور دنیاوی لحاظ سے یقینا ایک اہم اور حساس عہدہ ہے۔ پس اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امامت کا شمار انتہائی اہم عقائد میں سے ہونا چاہیے جس میں نبی کے بعد امت کی رہبری جیسا اہم مسئلہ مورد نظر ہے۔

 

۴۔ یہ بات انتہائی جاہلانہ بات ہے کہ قرآن و حدیث نے امامت کے موضوع کو اہمیت نہیں دی ہے۔ بلکہ اگر کوئی تعصب سے ہٹ کر دیکھیں تو اس موضوع کے بارے بار بار تاکید ہوئی ہے۔ انبیائے سلف کی سیرت بھی یہی تھی کہ اپنے بعد امت کو امام، پیشوا، نائب اور وصی کے بغیر نہیں چھوڑتے تھے۔ امامت کے موضوع پر ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں دسیوں آیات موجود ہیں، اور احادیث کی کتابوں میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں روایات موجود ہیں۔

ہم چند آیات و روایات یہاں بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ رسول گرامی اسلامﷺ کے بعد اولو الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ) اولو الامر وہی امام ہے۔

۲۔ طاغوت کی اطاعت سے بڑی شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) طاغوت وہ ہے جس کے پاس حکومت کرنے کا خدا کی طرف سے اذن نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں امام وہ ہے جس کے پاس حق حکومت، خدا کی طرف سے ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے امامت کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک امام وہ ہے جو لوگوں کو جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں، ان کے مقابلے میں بعض امام برحق وہ ہیں جو خدا کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔

۳۔ حدیث غدیر (مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ. أَللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ، وَ عادِ مَنْ عاداهُ) کے مطابق آنحضرتﷺ نے اپنے بعد مولا علی علیہ السلام کا نام لے کر ان کو خلیفہ، نائب، جانشین اور امام کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور آپﷺ نے نہ صرف زبانی اعلان پر اکتفا کیا، بلکہ باقاعدہ تمام صحابہ سے اس بات پر بیعت بھی لی ہے۔

۴۔ حدیث ثقلین (إني تارك فيكم الثقلين : كتاب الله، وعترتي أهل بيتي، ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي أبدا) کے مطابق رسول اللہﷺ نے اپنے بعد امت کو قرآن کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ ضلالت اور گمراہی سے بچا جا سکے۔ اس طرح سے آپ نے اہل بیت کرام علیھم السلام کی مرجعیت عمومی پر مہر ثبت کی ہے۔

۵۔ اہل سنت کی صحاح کی متعدد روایات کے مطابق آُپﷺ نے نا صرف اپنے بعد امامت کا اعلان کیا، بلکہ امام، خلیفہ اور امیر کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کا قبیلہ اور اوصاف تک بتا دئیے۔ (مزے کی بات یہ ہے کہ اہل سنت 12 کی تعداد آج تک پوری نہیں کر سکے اور عملی طور پر اس حدیث سے تغافل کرتے نظر آتے ہیں۔)

 

آیا ان تمام باتوں کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث نے امامت کے مسئلے کو کوئی اہمیت نہیں دی؟ یقینا تعصب ایسی بلا ہے جس کی بنا پر انسان واضح ترین حقائق کا بڑی آسانی کے ساتھ  اس وجہ سے انکار کر جاتا ہے چونکہ یہ بات ان کے اپنے عقیدے کے خلاف ہے۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 110 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26