امامت کی بحث کا تعلق کس علم سے ہے؟

ساخت وبلاگ

امامت کی بحث کا تعلق کس علم سے ہے؟

 

اہل سنت قائل ہیں کہ امام اور خلیفہ کی تعیین لوگوں کے ذمے ہے، لہذا یہ مکلفین (عام لوگوں) کا فعل ہے، اور مکلف کے فعل سے بحث علم فقہ میں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے امامت کی بحث ایک فقہی اور فرعی بحث ہے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ قائل ہیں کہ امامت کا تعلق عقیدے سے ہے اور یہ ایک اصولی مسئلہ ہے، نہ فروعی۔ جس طرح سے نبی اور رسول کو اللہ تعالی خود معین فرماتا ہے، (اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ) اسی طرح امام کو بھی اللہ تعالی خود معین فرماتا ہے۔ نبی کی طرح امام کی بھی ذمہ داری دینی و دنیاوی امور میں لوگوں کی ہدایت اور قرآن و سنت کی تشریح ہے۔

یہاں جب ہم اہل سنت سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کے نزدیک امامت کی بحث ایک فقہی مسئلہ ہے تو کیوں تمام اہل سنت متکلمین نے علم کلام اور عقیدے کی کتابوں میں امامت کی بحث شامل کی ہے؟

اس حوالے سے وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ گزشتہ علماء کی اتباع میں ہے جو وہ کلامی کتابوں کے آخر میں امامت کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ گویا یہ علم کلام سے ملحقہ بحث ہے، اصلی بحث نہیں۔ اس حوالے سے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امامت کے باب میں اہل بدعت کی طرف سے بہت زیادہ خرافات پھیلائی گئی ہیں، جن کا دفاع کلامی کتابوں میں ضروری ہے۔

 

لیکن اہل سنت کا یہ نظریہ کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں:

 

۱۔ یہ بات ٹھیک نہیں کہ امام کی تعیین لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ پہلے مرحلے میں ہمیں چاہیے امام کے مقام اور مرتبے کو معین کریں۔ (اس حوالے سے ہم بعد میں گفتگو کریں گے اور بتائیں گے کہ امام میں کونسی صفات اور خصوصیات ہونی چاہیں۔) امامت کے منصب، اس عہدے کی ذمہ داریوں اور امام کی صفات و خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امام کی تعیین عام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگ اکھٹے ہوں اور جمہوریت کے طریقے پر کسی کو تمام عالم اسلام کا امام، رسول کا جانشین اور خلیفہ بنائیں۔

 

۲۔ کلامی کتابوں میں امامت کی بحث کو شامل کرنا خود اس بات کی نشانی ہے کہ یہ بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا تعلق انسان کے عقیدے سے ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والے شبہات کا تعلق عقیدے سے نہ ہوتا تو کلامی کتابوں میں اس کے دفاع کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

 

۳۔ اگر امامت کا تعلق فروع سے ہے اور عقیدے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو کیوں بہت سارے اہل سنت علماء نے حضرت ابوبکر یا حضرت عمر کی خلافت کے منکر کے حوالے سے کفر کا فتوی دیا ہوا ہے؟ کسی فرعی حکم کے انکار سے کیا انسان کافر بن جاتا ہے؟ پس یہ دو باتیں آپس میں سازگار نہیں ہیں۔

 

۴۔ اہل سنت امام اور خلیفہ کے لیے جن صفات کے قائل ہیں، اگر ان کو مدنظر رکھیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں امامت کی بحث کا تعلق نہ اصول سے ہے اور نہ ہی فروع سے۔ اہل سنت امام اور خلیفہ کی شان اس قدر گھٹاتے ہیں کہ اس منصب کو ایک حاکم، ناظم، امیر اور بادشاہ کے برابر سمجھتے ہیں۔  ان کے ہاں ہر حاکم خلیفہ ہے بے شک وہ ظالم، فاسق اور فاجر ہی کیوں نا ہو! لہذا بہت سے اہل سنت یزید اور معاویہ جیسے ظالم، فاسق و فاجر کو بھی خلیفہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقت دیکھ لی جائے تو اہل سنت کے ہاں امامت کا تعلق دین سے بنتا ہی نہیں ہے، بلکہ ایک دنیاوی عہدہ بن کے رہ جاتا ہے۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 124 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26