امامت کی بحث کی اہمیت

ساخت وبلاگ

امامت کی بحث کی اہمیت

 

عام طور پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ امامت و خلافت کی بحث اس دور میں چھیڑنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ ایک جھگڑا تھا جو تاریخ کے اوراق کا حصہ بن چکا ہے۔ اس بات کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ اب ہم کسی چیز کو، کسی واقعے کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ کون حق پر تھا کون باطل پر؟ اس کا فیصلہ خدا کو کرنے دیں۔ ہم خدا بن کر فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ اور جو لوگ گزر گئے ان کے بارے میں اللہ تعالی قرآن مجید میں اعلان فرما چکا ہے: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔ یعنی وہ امت تھی جو گزر چکی۔ جو نیک کام انہوں نے کیا وہ ان کے حق میں ہے اور جو نیک کام تم لوگ کر رہے ہو وہ تمہارے حق میں ہے۔ وہ لوگ کیا کام کرتے تھے اس کا سوال تم سے نہیں پوچھا جائے گا۔

لیکن اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امامت کی بحث کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں:

 

۱۔ امامت کی بحث کا انسان کی دنیوی و اخروی سعادت اور شقاوت سے بہت گہرا رابطہ ہے۔ امام کی پہچان اس لیے ضروری ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے۔ امام دین اور دنیا کے معاملات میں راہنما ہوتا ہے۔ امام سے دین کے معاملات میں رہنمائی لی جاتی ہے۔ دنیاوی معاملات میں بھی امام بہترین مددگار ہے۔ اب اگر صحیح امام کی پہچان نہ ہو تو انسان ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو سکتا ہے اور اس کا نتیجہ ابدی شقاوت اور جہنم کے عذاب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اگر امامت و خلافت کی بحث کا آج کے دور کے انسان کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہ ہوتا تو ہم بھی اس بحث کو چھوڑ دیتے۔ جبکہ حقیقیت یہ ہے کہ اس بحث کا ہر دور کے انسان کی اخروی نجات اور دنیوی سعادت کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ دین کا مرجع کن لوگوں کو ہونا چاہیے اس کی تعیین اس سے بحث سے مربوط ہے۔ کونسی احادیث لینی ہیں، کونسی نہیں؟ شریعت کے مصادر کونسے ہیں؟ دین کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اس طرح کے بہت سارے کلیدی مسائل کا حل امامت کی بحث سے مربوط ہے۔

 

۲۔ امامت کی بحث کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ جو واقعات گزر چکے ہیں ان کی اصلاح کی جائے یا ان میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔ بلکہ جو کچھ تاریخ میں واقعات رونما ہوئے ہیں، قرآن کریم اور سنت نبویہ کے ذریعے ان کو جانچنا ہے تاکہ معلوم ہوجائے جو واقعات رونما ہوئے کیا وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تھے یا ان کے خلاف؟اس ذریعے سے حق اور باطل کی پہچان آسان ہو جائے گی تاکہ حق کی پیروی کی جائے، اور باطل سے بچا جا سکے۔

 

۳۔ شیعہ سنی متفق روایات کے مطابق جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت اور ان کی بیعت کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ ایسے میں ہر زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے تاکہ ان کی معرفت، بیعت اور اطاعت ممکن ہو۔ یہاں سے بھی امامت کی بحث کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں پر اس زمانے کے برحق امام کی معرفت واجب ہے تاکہ جاہلیت کی موت سے بچا جا سکے۔

 

۴۔ امامت کی بحث کا نبوت کے ساتھ بھی گہرا ربط اور تعلق ہے۔ شیعہ اور سنی، امامت اور خلافت کو نبوت کے سلسلے کے خاتمے کے بعد اسی کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔ امام یا خلیفہ کو نبی کا جانشین، نائب اور وصی مانتے ہیں۔ امامت اور نبوت کے باہمی رابطے کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ جس وقت دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول گرامی اسلام ﷺنے اپنی نبوت کا پہلی دفعہ اعلان کیا ہے اسی وقت ہی اپنے بعد اپنے نائب اور خلیفہ کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ یعنی امامت کا اعلان، نبوت کے اعلان کے ساتھ متصل ہے۔ اسی طرح اپنی حیات طیبہ کے ہر اہم موڑ پر آپ ﷺنے امامت اور اپنی جانشینی کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس حوالے سے ارشادات فرمائے ہیں۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 118 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26