علم و معرفت کے وسائل

ساخت وبلاگ

علم و معرفت کے وسائل

عباس حسینی

 

علم اور معرفت کے حصول میں انسان بہت سارے وسائل کے محتاج ہیں۔ انسان کے پاس جو بھی علم ہے انہی طریقوں اور وسائل سے اخذ شدہ ہے۔ وہ وسائل مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔

 

۱۔ حواس

سب سے اہم وسیلہ ہے۔ جس کے پاس کسی ایک حس کی کمی ہو، مثلا نابینا ہو، وہ اس حس سے متعلق تمام حقائق سے جاہل رہتا ہے۔ حس کی دو قسمیں ہیں۔ ظاہری حس، جسے حواس خمسہ میں تقسیم کرتے ہیں اور جن کے ذریعے انسان کو تمام رنگوں، ذائقوں، آوازوں، کسی چیز کے حجم، اس کی سختی، نرمی  وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔

اورایک  باطنی حس ہے جس کے ذریعےانسان  کے  اندرونی حالات جیسے خوشی، غمی، دکھ، درد، ارادہ وغیرہ کا احساس ہوتا ہے۔

 

۲۔ عقل

انسانی عقل بھی علم کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بعض فلسفیوں کے نزدیک حواس در حقیقت عقل کے خادم ہیں، اور حواس سے حاصل شدہ معلومات کو عقل خام مال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ عقل کے کاموں کا خلاصہ یہ ہے:

-         کلی مفہوم بنانا۔ مثلا زید، بکر، عمرو وغیرہ کو دیکھ کر انسان کا مفہوم اخذ کرنا۔

-         حکم لگانا۔ کسی بھی معاملے کے حوالے سے حکم لگانا کہ یہ درست ہے، یہ غلط ہے، یہ حقیقیت ہے، یہ جھوٹ ہے، سب کچھ عقل کا کام ہے۔

-         کسی بھی مطلب پر دلیل قائم کرنا۔ مثلا جب کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے، اس پر دلیل قائم کرنا عقل کا کام ہے۔اس ذریعے سے عقل ایک مجہول سے معلوم تک کا سفر طے کرتی ہے۔

-         تجزیہ اور ترکیب۔ مثلا انسان کی ماہیت اور حقیقت کے حوالے سے عقل کہتی ہے کہ یہ ایسا حیون ہے جو ناطق ہے۔ یہاں ایک مفہوم کا تجزیہ ہوا ہے۔بعد میں انہی اجزا کو جوڑ کر دوبارہ ترکیب بھی بنا سکتی ہے۔

 

۳۔ شھود یا مکاشفہ

علم کا تیسرا راستہ انسان کے پاس شہود کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی حقیقت کو بغیر کسی واسطے کے جس طرح سے وہ حقیقت ہے اسی طرح دل کے راستے سے پا لے۔ اس علم میں چونکہ درمیان میں کوئی واسطہ نہیں اس لیے غلطی کا بھی امکان نہیں۔ جیسے بہت سارے اللہ کے عارف بندے مراقبے اور سیر و سلوک کے دوران حقائق کشف کر لیتے ہیں۔البتہ ان حقائق کے بیان اور ان کی تفسیر چونکہ الگ مرحلہ ہے اس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے۔

 

۴۔ وحی اور الہام

یہ طریقہ اللہ کے ان بندوں کے ساتھ خاص ہے جن کو وہ چن لیتا ہے۔ اس راہ میں بھی کسی قسم کے خطا کا امکان نہیں چونکہ براہ راست راستہ ہے اور پیغام دینے والا اور لینے والا دونوں معصوم ہیں۔ بعد میں وحی کے ذریعے حاصل شدہ پیغام رسول کے ذریعے عام لوگوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

 

۵۔ مرجعیت

مرجعیت یا اتھارٹی بھی علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان عام طور پر کسی بھی فیلڈ سے متعلق ماہرین کی رائے کو اس پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کرتا ہے۔ چاہے وہ میڈیکل یا انجینرنگ کا مسئلہ ہو یا دین اور احکام فقہی کا اس فیلڈ کے ماہرین کو اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور ان سے نقل شدہ بات کو مستند سمجھی جاتی ہے۔

 

۶۔ نقل

ہمارے علم کا ایک بڑا حصہ ان باتوں پر مشتمل ہے جو دیگر لوگوں سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں۔ مثلا سابقہ اقوام کی تاریخ۔ ان ممالک کا جغرافیہ جن کا ہم نے سفر نہیں کیا۔ پیامبر اکرم ﷺ کی احادیث جن کے دور میں ہم نہیں تھے۔ اس طریقے میں کسی حقیقت کو ہم براہ راست مشاہدہ نہیں کرتے، بلکہ کوئی دوسرا جس نے مشاہدہ کیا ہو وہ ہم تک اس بات اور حقیقت کو نقل کرتا ہے اور پہنچاتا ہے۔

 

ان کے علاوہ جتنے بھی طریقے ہیں، انہیں میں سے کسی ایک کی طرف انہیں پلٹا سکتے ہیں۔ مثلا تجربہ بھی علم کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ سائنس کی بنیاد ہی تجربے پر ہے۔ لیکن تجربے میں حس اور عقل دونوں کا استعمال ایک ساتھ ہے۔ حس کے ذریعے مختلف موارد کا مشاہدہ کرنے کے بعد عقل کے ذریعے اس حوالے سے ایک کلی حکم اور قانون کو اخذ کرتے ہیں۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 139 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26