اسلام مخالف ٹرائیکا

ساخت وبلاگ

اسلام مخالف ٹرائیکا

تحریر: عباس حسینی

رسول گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے مدینہ منورہ میں جس اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور جس کی خاطر آپﷺ اور آپ کے جانثار اصحاب نے بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں، جب آپ اس ظاہری دنیا سے جا رہے تھے، یہ ریاست اسلام مخالف ٹرائیکا کے گھیرے میں تھی۔ مشرق اور شمال کی طرف اس وقت کی دو بڑی طاغوتی ریاستیں تھیں جواس نوزاد اسلامی ریاست کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ روم اور ایران کی سلطنتیں اس وقت انتہائی طاقتور تھیں۔ جس وقت رسول گرامی اسلام ﷺ نے ایران کے بادشاہ کو خط لکھا ہے، اس نےطاقت کے نشے میں  آپ کا مبارک خط پھاڑ دیا تھا اور یمن میں موجود اپنے گورنر کے نام خط لکھا تھا کہ اس مدعی نبوت کو پکڑ کر میرے پاس بھیجو۔ رومی سلطنت، مدینے کی اسلامی ریاست کے لیے کس قدر خطرہ تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں دو دفعہ رومیوں سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کا لشکر گیا ہے۔ ۸ ہجری میں جنگ موتہ رومیوں کے خلاف لڑی گئی جس میں بعض بڑے صحابہ جیسے جعفر بن ابی طالب، زید بن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ  شہادت نوش کر گئے، جبکہ اسلامی لشکر کو رومیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے اگلے سال رسول اکرمﷺ خود ایک لشکر جرار لے کر تبوک کی طرف نکلے۔ لیکن اس دفعہ رومی لڑنے نہیں آئے۔ اسلامی لشکر چند دنوں تک تبوک میں انتظار کرتا رہا اور پھر واپس آیا۔ اور پھر تیسری مرتبہ آپﷺ کی وفات سے چند ماہ پہلے اسامہ بن زید کی سربراہی میں ایک اور لشکر رومیوں سے لڑنے کے لیے آپﷺ نے آمادہ فرمایا اور خصوصی تاکید کی کہ سارے صحابہ اس لشکر میں شریک ہوں اور رومیوں سے لڑنے کے لیے مدینہ سے باہر نکلیں۔ البتہ تاریخ کہتی ہے کہ مولائے متقیان علی بن ابی طالب علیہ السلام کا نام اس لشکر میں شامل نہیں تھا۔ لیکن تمام بڑے صحابہ نے رسول اکرمﷺ کے اس فرمان کی حکم عدولی کی اور بار بار تاکید کے باوجود مدینے میں ہی بیٹھے رہے، جس پر رسول گرامی اسلامﷺ ان اصحاب سے انتہائی ناراض ہوئے، جس کا آپ ﷺ نے کئی دفعہ اظہار بھی فرمایا۔

ان دو خارجی دشمنوں کے علاوہ، اس ٹرائیکا میں تیسرا داخلی دشمن منافقین کی صورت میں موجود تھے۔ یہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ جونہی رسالت مآبﷺ کی وفات ہوتی ہے ہم فورا اس ناپائیدار ریاست کو اچک لیں گے۔ ان کو پہچاننا اتنا آسان کام نہیں تھا، چونکہ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا لباس اوڑھا ہوا تھا اور صحابی رسول کے عنوان سے پہچانے جاتےتھے، لیکن دل ہی دل میں اس ریاست کی جڑیں کاٹنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو منافقین سے خصوصی طور پر ہشیار رہنے کی تاکید کی ہے اور بہت ساری آیات کے علاوہ ایک پوری سورت میں ان کے حوالےسے بات کی ہے۔

اب یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جس ریاست کی خاطر رسول گرامی اسلامﷺ نے اتنی زحمتیں اٹھائی ہیں، کیا آپﷺ اس کے مستقبل کے حوالے سے پریشان نہیں تھے؟ کیا آپ نے اس کے مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی نہیں سوچا تھا؟ جبکہ پیچھے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دشمن کے اس خبیث مثلثی اتحاد سے آپ آگاہ تھے۔ کیا عقلی طور پر ایسا تصور کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ ہم میں سے کوئی شخص ایک چھوٹا سا ادارہ بھی بنائیں تو اس کے مستقبل کے حوالے سے ہر قسم کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اپنے بعد کسی مطمئن شخص کو اس کی ذمہ داری سونپتے ہیں۔ اس ادارے کو چلانے والے میں کیا خصوصیات ہونی چاہیے اس حوالے سے رولز بناتے ہیں۔

رسول گرامی اسلامﷺ اسلامی ریاست مخالف ٹرائیکا کےمقابلے میں مسلمانوں کو متحد رکھنے کی خاطر اپنا جانشین معین کر جاتے یہ بہتر تھا؟ یا یہ کام امت کے سپرد کر جاتے یہ بہتر تھا؟ جبکہ آپﷺ جانتےتھے کہ قبائلی نظام میں منقسم  امت کا ایک بات پر متفق ہونا انتہائی مشکل امر ہے۔ اور ساتھ ہی آپﷺ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ کی وفات کے فورا بعد یہ ٹرائیکا اسلامی ریاست کے درپے ہوگا۔ یقینا ہر عاقل یہاں یہ حکم لگاتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا کہ آپﷺ اپنا نائب اور جانشین معین کر جاتے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق آپﷺ نے اپنا یہ فریضہ بخوبی انجام دیا اور حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام کو اپنا نائب، وصی، جانشین اور خلیفہ معین فرما گئے۔

(استفادہ از: محاضرات فی الالہیات، استاد جعفر سبحانی)

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 110 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26