نبی اور رسول میں فرق

ساخت وبلاگ

نبی اور رسول میں فرق

 

قرآن مجید میں خدا کے خاص نمائندوں کے لیے جو بشریت کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے، نبی اور رسول کہا گیا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ رسول اور نبی کیا ایک جیسے ہوتے ہیں؟  یا ان میں کوئی فرق ہوتا ہے؟

اس حوالے سے متعدد اقوال بیان کیے گئے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ قرآنی استعمال میں نبی اور رسول ایک دوسرے کے ہم معنی استعمال ہوئے ہیں اور ان میں صرف لفظ اور اعتبار کا فرق ہے۔ لیکن دوسری طرف اکثریت قائل ہے کہ نبی اور سول میں فرق ہے۔ جو لوگ فرق کے قائل ہوئے ہیں ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ نبی، رسول کی نسبت عام ہے۔ یعنی ہر رسول نبی ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں۔ مشہور یہی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے صرف ۳۱۳ رسول تھے۔ پس رسالت، نبوت سے بڑھ کر ایک مقام اور مرتبہ ہے۔

نبی کا لفظ "ن ب ا" سے لیا گیا ہے، اور عربی زبان میں "نبا" خبر کو کہا جاتا ہے۔ پس نبی جو "فعیل" کے وزن پر ہے اور فاعل کے معنی میں ہے، اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کی طرف سے خبر حاصل کرتا ہے اور پھر اسے آگے پہنچاتا ہے۔ یا ممکن ہے نبی کا لفظ "ن ب و" سے ہو۔ عربی زبان میں "نبوہ" زمین کی بلندی کو کہا جاتا ہے۔ پس نبی "فعیل" کے وزن پر اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی وہ شخص جس کا مرتبہ اور مقام بلند کیا گیا ہے اور وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔

رسول کا لفظ "ر س ل"سے لیا گیا ہے۔ "رسل" عربی زبان میں کسی شخص کو کسی کام کے لیے بھیجنے اور ابھارنے کے معنی میں ہے۔ پس رسول "فعول" کے وزن پر اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ یعنی وہ شخص جسے کسی کام یا کسی پیغام کی خاطر بھیجا گیا ہو۔

قرآن مجید میں نبی کا لفظ تقریبا 75 مرتبہ مختلف شکلوں میں آیا ہے اور ہمیشہ خدا کے خاص انسانی نمائندوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔

جبکہ قرآن مجید میں رسول کا لفظ تقریبا 250 مرتبہ آیا ہے کہ سوائے ایک مورد کے ہر جگہ خدا کے خاص مامور مخلوق کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ البتہ قرآنی استعمال کے مطابق فرشتوں اور جنوں کے لیے بھی رسول کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

 

نبی اور رسول میں فرق کے حوالے سے مشہور اقول:

۱۔ تبلیغ وحی کا فرق

بعض نے کہا ہے کہ رسول وہ ہے جس کے اوپر نہ صرف خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے، بلکہ اس وحی کی تبلغ اور احکام و الہی معارف الہی لوگوں تک پہنچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن نبی پر اگرچہ خدا کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے، لیکن ممکن ہے تبلیغ کا حکم اس کے لیے نہ ہو۔ (مسلمانوں کے درمیان یہی قول سب سےمشہور ہے۔)

لیکن قرآنی آیات میں غور سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فرق درست نہیں۔

الف) جیسے پہلے بیان ہوا کہ نبی کا لفظ "نبا" سے لیا گیا ہے، اور نبی وہ ہے جو خبر پہنچائے۔ پس اس کا لازمہ یہ ہے کہ نبی تک جو خبر پہنچتی ہے وہ لوگوں تک پہنچائے۔

ب) قرآن کی بعض آیات سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ نبی خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ہےاور نبی لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

وَ ما أَرْسَلْنا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ أَخَذْنا أَهْلَها بِالْبَأْساءِ وَ الضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ

اس آیت کے مطابق نبی کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالی نے لوگوں سے سختی اور مصیبتوں کے ذریعے امتحان لیا ہے۔ لوگوں سے امتحان لینا اس وقت حکیمانہ ہے جب خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچ چکا ہو۔ اور آیت کے مطابق وہ نبی ہے۔ پس نبی کی بھی ذمہ داری ہے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔

ج) قرآن مجید میں نبی کے لیے مبشر (بشارت دینے والا) اور منذر (ڈرانے والا) کی صفتیں بیان ہوئی ہیں۔

كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ

پس اس کا مطلب ہے نبی لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچاتا تھا اور لوگوں کو اچھے کاموں پر بشارت دیتا تھا اور بروں کاموں سے انذار کرتا تھا۔

ان تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نبی بھی، رسول کی طرح پیغام الہی کو پہنچانے پر مامور ہوتا ہے۔ پس نبی اور رسول میں یہ والا فرق درست نہیں۔

 

۲۔ معجزہ ، کتاب اور شریعت کا فرق

اس قول کے مطابق رسول وہ ہے جس کے پاس معجزہ ، کتاب اور شریعت ہو۔ جبکہ نبی کے پاس یہ چیزیں نہیں ہوتیں ، بلکہ ہر نبی اپنے سے پہلے کے رسول کی شریعت کا تابع ہوتا ہے اور اسی کی تبلیغ کرتا ہے۔

اس مطلب پر دلیل قرآن کی یہ آیت ہو سکتی ہے: فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ جاؤُا بِالْبَيِّناتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْكِتابِ الْمُنِيرِ

اس معنی میں اور بھی بہت ساری آیات ہیں۔

لیکن مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔

الف) اس آیت (اور اس سے مشابہ دوسری آیات) سے یہ ہرگز استفادہ نہیں ہوتا کہ ہر رسول کے پاس کتاب تھی یا شریعت تھی۔ اگر صرف بعض رسولوں کو معجزہ اور کتاب عطا ہوئی ہو تب بھی آیت کا مطلب درست ہے۔

ب) قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ بعض نبیوں کےاوپر بھی کتاب نازل ہوئی ہے۔

كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتابَ

ج) قرآن کریم نے ان انبیاء کے لیے بھی رسول کا لفظ استعمال کیا ہے جن کے بارے ثابت ہے کہ وہ مستقل شریعت اور کتاب نہیں رکھتے تھے۔ مثلا حضرت اسماعیل کے بارے ہے: 

وَ اذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِسْماعِيلَ إِنَّهُ كانَ صادِقَ الْوَعْدِ وَ كانَ رَسُولاً نَبِيًّا

اسی طرح حضرت لوط بھی صاحب شریعت نہیں تھے، بلکہ حضرت ابراہیم کی شریعت تبلیغ کرتے تھے۔ قرآن نے ان کے لیے بھی رسول کا لفظ استعمال کیا ہے۔

د) قرآنی آیات اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صرف پانچ پیغمبر ایسے تھے جو اپنی خاص شریعت رکھتے تھے۔ جب امام صادق علیہ السلام سےسوال ہوا کہ اولو العزم رسول کون تھے؟  تو آپ نے جواب دیا: حضرت نوح، ابراہیم، موسی ، عیسی اور پیامبر اکرم علیھم السلام۔ پھر پوچھا کہ یہ انبیاء کیوں اولو العزم بنے؟ تو جواب دیا کہ ان میں سے ہرایک کو کتاب اور شریعت دی گئی اور ان کے بعد آنے والے انبیاء اگلے اولو العزم نبی کے آنے تک پچھلی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول خداﷺ تشریف لائے۔ آپ کی شریعت قیامت تک کے لیے ہے۔

قرآن مجید نے بھی کہا ہے:  شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً وَ الَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ وَ ما وَصَّيْنا بِهِ إِبْراهِيمَ وَ مُوسى وَ عِيسى

اس آیت کا ظاہر بھی یہی ہے کہ شریعت صرف پانچ رسولوں کے ساتھ خاص ہے، کہ جن کو اولو العزم کہا جاتا ہے۔

ہ ) قرآن کریم کے مطابق بعض انبیاء کہ جو صاحب شریعت اور رسول نہیں تھے، انہیں بھی معجزات عطا ہوئی ہیں۔ مثلا حضرت صالح کہ جن کے لیے معجزے کی صورت میں پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی۔

ان تمام دلیلوں کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف معجزہ یا کتاب ہونا رسول ہونے کی نشانی نہیں ہے اور ہر رسول صاحب شریعت نہیں تھے۔

 

۳۔ اتمام حجت کا فرق

نبی اور رسول کے لغوی معنی اور قرآنی استعمال کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ نبی اور رسول دونوں خدا کی طرف سے پیغام حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں، لیکن رسول کا مرتبہ، نبی سے بڑا ہے۔ نبی کی ذمہ داری  غیب سے خبر لے کر اسے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ لیکن رسول اس عہدے کے علاوہ ایک اور خصوصی  عہدہ بھی رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اتمامِ حجت کرے (یعنی اس طرح سے لوگوں کے سامنے حقیقت بیان کرے کہ لوگوں کے پاس حق ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ اور دلیل باقی نہ رہے۔ اس کے باوجود نہ مانے تو خدا ان کو سزا دے سکتا ہے)۔

قرآنی آیات اس بات پر بہترین شاہد ہیں:

رُسُلاً مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ

وَ لِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذا جاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ

رسول کے آنے کے بعد خدا کی طرف سے حجت اور دلیل تمام ہوجاتی ہےاور اس کے بعد اللہ تعالی کسی قوم کی ہلاکت یا اس کی بقاء اور نعمت کے حوالے سے فیصلہ لیتا ہے۔

 

(استفادہ از استاد مصباح یزدی، کتاب"راہ و راہنما شناسی" (درس اول)، تلخیص وترجمہ: سید عباس حسینی)

(نوٹ: جو کچھ اس مقالے میں لکھا گیا ہے مترجم کا فہم ہے۔  کسی بھی مطلب کی نسبت استاد مصباح کی طرف دینے سے پہلے اصل کتاب دیکھ لی جائے۔)

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 127 تاريخ : پنجشنبه 18 بهمن 1397 ساعت: 8:26