دینی اور غیر دینی علم میں ٹکراو اور اس کا راہ حل

ساخت وبلاگ

دینی اور غیر دینی علم میں ٹکراو

اور اس کا راہ حل

 

اگر دینی علم (معرفت) اور غیر دینی (عقلی / تجربی معرفت) کے درمیان ٹکراو ہو تو اس وقت راہ حل کیا ہے؟ کونسی معرفت دوسری پر مقدم ہوگی؟ کس کی بات مانی جائی گی؟

 

کلی طور پر اس سوال کا جواب یوں دے سکتے ہیں کہ اس تعارض یا ٹکراو کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں:

 

۱۔  دونوں قطعی اور یقینی ہوں۔ (دینی معرفت بھی یقینی ہو، اور غیر دینی (عقلی معرفت یا سائنسی معرفت) بھی یقینی ہو۔) یاد رہے قطعی معرفت وہ ہے جو سو فیصد یقین پر مشتمل ہو۔

 

۲۔  دینی علم / معرفت قطعی اور یقینی ہو، جبکہ غیر دینی معرفت ظنی اور احتمالی ہو۔

 

۳۔ دوسری حالت کے برعکس، دینی معرفت ظنی جبکہ غیر دینی معرفت قطعی اور یقینی ہو۔

 

۴۔ دینی اور غیر دینی علم دونوں ظنی اور احتمالی ہوں۔

 

ہمارے نزدیک پہلی صورت کا امکان ہی نہیں ہے۔ لہذا اس کی آپ کوئی مثال پیش نہیں کر سکتے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک ہی موضوع کے بارے میں دو متضاد قطع اور یقین کا اجتماع عقلی طور پر ممکن ہی نہیں ہے۔

 

دوسری اور تیسری صورت میں جو بھی علم، قطعی اور یقینی ہو اسے غیر یقینی اور ظنی علم اور معرفت پر مقدم کیا جائے گا، چونکہ قطع اور یقین کا مرتبہ، ظن اور احتمال سے ہمیشہ بلند ہے۔ مثلا عقلی طور پر ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کا جسم نہیں ہو سکتا۔ پس قرآن مجید میں جو اللہ تعالی کی نسبت مختلف اعضاء کا تذکرہ ہوا ہے، وہ صرف لفظ کے ظہور کی حد تک ہے اور ظہور صرف ظن کا موجب ہے۔ پس ان کی تاویل کی ضرورت ہوگی۔ چونکہ لغت میں مجاز کا استمال کثرت سے ہوتا ہے، اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تخاطب کا وہی طریقہ استعمال کیا ہے جو عرف کا ہے، لہذا ان الفاظ کے بھی مجازی معنی مراد لیں گے۔ مثلا جہاں لفظ "ید" یعنی ہاتھ استعمال ہوا ہے وہاں قدرت اور طاقت کا معنی مراد ہوگا۔ اس طرح سے یہ تعارض حل اور ناسازگاری ختم ہو جائے گی۔ یا مثلا قرآن مجید کی آیات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ موجودہ انسانی نسل حضرت آدم علیہ السلام سے چلی ہے۔ پس وہ سائنسی نظریہ جو ظنی طور پر، انسان کو بندر کی نسل سے قرار دیتا ہے اس قطع اوریقین کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔

 

چوتھی صورت میں کہ جہاں دینی اور غیر دینی معرفت دونوں غیر یقینی ہو، اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ کونسی معرفت، یقین کے زیادہ قریب ہے۔ اس لحاظ سے اسے مقدم کیا جائے گا۔

بعض نے چوتھی صورت میں یہ راہ حل بھی پیش کیا ہے کہ اس صورت میں کسی ایک معرفت کا تعلق مقامِ عمل سے ہو تو وہ مقدم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو توقف ہوگا، اور کسی ایک طرف کو لینا ممکن نہ ہوگا۔

 

آخر میں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ کوئی بھی سائنسی معرفت کبھی بھی قطع اور یقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس علوم کے تعارض میں یہ فرض بالکل باطل ہے کہ سائنسی معرفت قطعی اور یقینی ہو۔ سائنس کی روش (method) چونکہ استقرائی ہے اور استقراء کبھی بھی قطع اور یقین کا فائدہ نہیں دیتا۔ پس تمام سائنسی علوم اگرچہ یقینی نہیں ہیں، لیکن اپنے حساب سے ان کے فوائد ہیں اور انسان اپنے روز مرہ کے مسائل میں ان سے مستفید ہو رہا ہے۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 143 تاريخ : سه شنبه 30 بهمن 1397 ساعت: 7:34