اسلام میں میراث کے اندر عورت کا حصہ نصف کیوں؟

ساخت وبلاگ

اسلام میں میراث کے اندر عورت کا حصہ نصف کیوں؟

 

سب سے پہلے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اسلام میں جو وراثت کا نظام ہے وہ کسی عام انسان کی طرف سے نہیں، بلکہ خالق کائنات کی طرف سے وضع شدہ ہے۔ ایسے میں اگر خدا کی عدالت اور اس کی حکمت پر کسی کو یقین کامل ہے پھر اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

 

ہاں اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ علماء نے اب تک قرآن سے یا احادیث سے غلط سمجھا ہے، اور قرآن و روایات میں کچھ اور کہا گیا ہے، تب وہ اپنی دلیل لے آئیں۔ اگر قابل توجہ ہوئی تو سب قبول کریں گے۔

علماء اس بات پر متفق ہیں کہ تمام شرعی احکام کے فلسفے، ان کی وجوہات اور ان کے پیچھے چھپی حکمتوں کا ہمیں علم نہیں۔ ایسے میں اس حکیم اور علیم ذات پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہونا چاہیے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اسلام میں عورت کی وراثت کے حوالے سے چند نکتے عرض ہیں:

 

اسلام میں (عام حالات کے اندر) عورت پر کسی قسم کا خرچہ اور نفقہ واجب نہیں۔ اگر بیٹی ہے تو باپ پر، بیوی ہے تو شوہر پر اور اگر ماں ہے تو اولاد پر اس کا نفقہ اور خرچہ واجب ہے۔ ایسے میں جب گھر کا سارا خرچہ (لباس، گھر، کھانا پینا اور دوسرے لوازمات) مرد نے چلانا ہے تو واضح سی بات ہے مرد کا حصہ بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ مرد نے اپنے علاوہ اپنی بیگم بچوں کا بھی خرچہ پورا کرنا ہوتا ہے۔ پس حقیقت اگر دیکھ لی جائے تو عورت کے پاس جتنا کچھ آتا ہے وہ اس کی بچت ہے، جبکہ مرد کے پاس جو کچھ آتا ہے اس نے فیملی پر خرچ کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں میراث میں عورت کا جو حصہ ہے وہ سارا اس کا اپنا ہے، جبکہ مرد کا جتنا حصہ ہے اس میں اس کی بیگم اور فیملی بھی شریک ہے چونکہ ان کا خرچہ مرد پر واجب ہے۔

 

اسلام نے عورت کے حقوق کے حوالے سے اتنی تاکید کی ہے کہ اگر مرد استطاعت رکھتا ہو اور اس کی بیگم کی شان بھی یہ ہو کہ اس کے لیے خادمہ وغیرہ رکھ لی جائے تو اس کا بھی خرچہ مرد کے اوپر ہے۔

 

حق مہر کے حوالے سے بھی یہ نکتہ اہم ہے کہ مرد نے مہر ادا کرنا ہے جبکہ عورت نے صرف وصول کرنا ہے۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں حق مہر کم رکھا جاتا ہے، جبکہ دنیا کے بہت سارے علاقوں میں لاکھوں کروڑوں میں حق مہر رکھا جاتا ہے، جو عورت نے لینا ہے اور مرد نے دینا ہے۔)
 

امام صادق علیہ السلام سے جب یہی سوال پوچھا گیا کہ وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ کیون ہے؟ تو آُپ نے جواب دیا: مرد کا حصہ اس لیے زیادہ ہے چونکہ اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ مرد کے اوپر جہاد واجب ہے، مرد کے اوپر گھر کا خرچہ واجب ہے۔ مرد "عاقلہ" ہے یعنی جنایت خطائی میں اس کے رشتہ داروں کی دیت اسے دینی پڑتی ہے۔ جبکہ مرد پر یہ ذمہ داریاں نہیں ہیں۔

 

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اسلام میں ہر جگہ عورت کا حصہ مرد کے حصے کا نصف نہیں ہے۔ بعض موارد میں میراث برابر بھی تقسیم ہوتی ہے۔ جیسے اگر کوئی مر جائے اور اس کے ورثاء میں صرف والدین ہوں تو والد اور والدہ میں میراث نصف نصف تقسیم ہوگی۔

 

خلاصہ کلام یہ کہ وہ خالق جس نے انسان کو بنایا وہ اس کے لیے اصلح نظام کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اس کا ہر فعل حکمت سے خالی نہیں۔ جو کچھ کہا ہے انسان ہی کی مصلحت کی خاطر کہا گیا ہے۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 145 تاريخ : چهارشنبه 11 ارديبهشت 1398 ساعت: 22:15