الظاهر الباطن

ساخت وبلاگ

الله تعالی کے لیے قرآن مجید اور احادیث میں جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں سے دو صفات ظاہر اور باطن کی صفت ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے:

(هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ)

خدا کی ذات ہے جو اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔

سوال یہ ہے کہ ایک ہی ذات اور ایک ہی حقیقت اول بھی ہو آخر بھی، اور ظاہر بھی ہو اور باطن بھی، یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ متضاد باتیں نہیں؟

 

اسی طرح اللہ تعالی کے لیے اور بھی متضاد صفات بیان ہوئی ہیں۔ مثلا جہاں وہ ذات رحمن اور رحیم ہے، وہیں اشد المعاقبین بھی ہے۔ یعنی شدید ترین سزا دینے والا۔۔۔

 

یہاں اللہ تعالی کی صفات ظاہر اور باطن کے حوالے سے مختصر اشارہ کرتے ہیں:

ممکن ہے مراد یہ ہو کہ اس کی ذات اور حقیقت تک پہنچنا کسی انسان کے بس میں نہیں، اس لحاظ سے وہ ذات باطن ہے۔ جبکہ اس کی صفات اور نعمتوں کو دیکھا جائے تو اہل بصیرت کو اس کی نشانی ہر چیز میں نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے۔ پس وہ ذات ظاہر ہے۔ اسی بنا پر احادیث میں اللہ تعالی کی ذات میں زیادہ غور و فکر کرنے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ اس کی نعمتوں میں فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے: (تَفَكَّرُوا فِي‌ ءَالآءِ اللَهِ؛ وَ لَا تَتَفَكَّرُوا فِي‌ ذَاتِ اللَه)

البتہ اس کی ایک تفسیر کی جا سکتی ہے:

اگر کوئی چیز بہت زیادہ واضح ہو تو انسان عام طور پر اسے نہیں دیکھ سکتا، اور اکثر اس سے غافل ہو جاتا ہے۔ عام حسی مثال سورج کی ہے جس کی طرف انسان نہیں دیکھ سکتا، جبکہ اسی سورج نے ساری دنیا کو روشن کیا ہوا ہوتا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، وہ در حقیقت نور کا انعکاس ہے۔ جبکہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں، لیکن عین اسی موقع پر اس نور سے غافل ہوتے ہیں، جس کی بدولت ساری چیزیں ہمیں دکھائی دی رہی ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے نور منقطع ہو تب متوجہ ہوجاتے ہیں کہ ہمارا دیکھنا نور کی برکت سے تھا۔

بالکل اسی طرح کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کے نور سے موجود ہے۔ (اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) لیکن ہم اکثر دوسری چیزوں کو دیکھتے دیکھتے اسی اصلی نور سے غافل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ساری کائنات ہے۔ پس اس لحاظ سے وہ ذات ہمارے لیے باطن ہے۔ جبکہ حقیقت دیکھی جائے تو اس مادی نور کی طرح وہ ہر جگہ موجودہ ہے۔ مادی نور کی طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں چونکہ وہ اس میں منقطع ہونا ممکن ہے، لیکن نور خدا اگر ایک لمحے کے لیے بھی منقطع ہو تو یہ کائنات فنا ہو جائے گی، لہذا ہم عام طور اس نور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر سورج کی روشنی کبھی بھی منقطع نہیں ہوتی تو شاید ہم سے بہت سارے اس نور کی طرف متوجہ ہی نا ہوتے۔

اسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے محقق سبزواری نے لکھا ہے:

یا من هو اختفی لفرط نوره

 الظاهر الباطن فی ظهوره

(اے وہ ذات جو جو اپنے نور کی شدت کی وجہ سے مخفی ہے۔ جو اپنے ظہور میں ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔۔۔ )

 

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 153 تاريخ : چهارشنبه 11 ارديبهشت 1398 ساعت: 22:15