فلسفہ اور سائنس میں فرق

ساخت وبلاگ

فلسفہ اور سائنس میں فرق

تحریر: سید عباس حسینی

 

مغرب میں نشات ثانیہ (رنسانس) کی تحریک کے بعد میٹافیزک کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ پہلے میٹافیزک کی جگہ علمیات (اپسٹمولوجی) نے لی۔ ڈیکارٹ سے لے کر فریگہ تک کے فلسفیوں کے ہاں دو باتوں نے اہمیت اختیار کی۔ ایک شناخت کے مسائل اور دوسری روش اور اسلوب کی بحث۔ لہذا ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کانٹ جیسے اہم فلسفی کا ہم وغم عقل کے حدود کی تعیین تھا۔ بیسویں صدی میں فریگہ کے بعد ایک طرف زبان (Language) بہت زیادہ اہمیت اختیار کی گئی لہذا فریگہ، راسل، ویٹگنشٹائن اور مور جیسے فلسفیوں نے زبان کے حوالے سےخوب بحثیں کیں۔ منطقی زبان اور زبانِ نمونہ(Ideal Language) کی بات کی گئی۔ دوسری طرف تجربی روش/اسلوب نے ہر علمی میدان میں غلبہ پیدا کیا اور اس کے علاوہ ہر دوسری روش کو رد کیا جانے لگا۔ ایسے میں میٹافیزیک کی اہمیت خود بخود کم ہوتی گئی چونکہ نہ اس کی روش تجربی تھی اور نہ اس کی زبان آئیڈیل۔

لیکن دوسری طرف اسلامی فلسفے میں میٹافیزک آج بھی اتنی اہمیت کی حامل ہےجتنی آج سے ہزار سال پہلے تھی یا جیسے سقراط، افلاطون اور ارسطو کے ہاں اس کی اہمیت تھی۔ اسلامی فلسفے کے مطابق میٹافیزک کے بغیر کسی بھی علم کا، یہاں تک کہ سائنس کا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ہر علم بعض حوالوں سے میٹافیزک کا محتاج ہے۔

 ہم یہاں سائنس اور فلسفے میں ایک اہم اور بنیادی فرق بیان کرنا چاہتے ہیں جس کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسفے (میٹافیزک) کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی ، بلکہ بڑھ گئی ہے۔ وہ فرق اگر ایک جملے میں بیان کریں تو یہ ہے کہ : سائنس عللِ سفلیٰ سے بحث کرتی ہے جبکہ فلسفہ علل قصویٰ سے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سائنس میں کسی بھی چیز کی قریبی علت ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مثلا جب سیب درخت سے گرے تو سائنس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے اس کی وجہ اور علت کو کشف کیا جائے۔ مثلا کہا گیا زمین کی کشش ثقل ہے جس کی بنا پر زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بلکہ ہر چیز دوسری چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔  چونکہ سیب کی نسبت زمین بڑا جسم ہے، لہذا سیب زمین پر گرتا ہے۔ اب ممکن ہے اس فارمولے سے مختلف ٹیکنالوجیز میں استفادہ کیا جائے۔ لیکن فلسفے کا کام اس سے بڑھ کر ہے۔ فلسفہ کہتا ہے زمین میں یہ کشش ثقل کیوں ہے؟ کس نے رکھا ہے؟ کیا خود زمین کی اپنی ہے یا کسی اور نے اس میں یہ چیز قرار دی ہے؟ کیا زمین ہمیشہ سے ہے یا بعد میں ایجاد ہوئی؟ اگر بعد میں ایجاد ہوئی اس کا خالق کون ہے؟ پس فلسفہ اس آخری علت اور سبب تک جانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے یہ ساری کائنات ہے اور کائنات کا نظام ہے۔ دوسری مثال ملاحظہ کیجیے۔ سائنس اس کائنات کی ابتدا کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ اس بڑھے دھماکے (Big Bang) تک کی بات کرتی ہے۔ اس کے بعد سائنس چپ ہے۔ لیکن فلسفہ یہاں حق بجانب یہ سوال پوچھتا ہے کہ وہ دھماکہ کس چیز میں ہوا؟ وہ چیز کہاں سے آئی؟ اس چیز کا بنانے والا کون تھا؟لہذا فلسفہ جب تک آخری علت تک نہ پہنچے اور اسے تمام تر (کیوں؟) اورتمام تر (کیسے؟) کا جواب نہ ملے اس وقت تک وہ خاموش نہیں ہوتا جبکہ سائنس قریبی علتوں کو جاننے کے بعد اسی پر راضی ہو جاتی ہے۔ہاں البتہ سائنس اور فسلفے کی روش میں فرق ضرور ہے۔ سائنس تجربی روش سے استفادہ کرتی ہے، جبکہ فلسفہ عقلی بنیادوں پر بحث کو آگے بڑھاتی ہے۔

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 127 تاريخ : يکشنبه 4 اسفند 1398 ساعت: 20:01