یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح کا قتل۔۔۔

ساخت وبلاگ

یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح کا قتل۔۔۔

کیوں، کیسے اور کس نے کیا؟

 

تحریر: محمد صادق الحسینی

ترجمہ: عباس حسینی

 

اس بھیانک ناکام  انقلاب کی تفصیل جس کے تحت علی عبد اللہ صالح نے انصار اللہ(حوثیوں) کے خلاف بغاوت کی تاکہ وہ دوبارہ  سے یمن کا بلا شرکت غیرے حاکم بن جائیں، اور اپنے  بیٹے کو جو اس وقت عرب امارات میں مقیم ہیں یمن کا صدر بنایا جائے۔ تفصیل کچھ یوں ہے:

۱۔ انصار اللہ کے خلاف بغاوت کی پلاننگ اب سے تقریبا ۸ مہینے پہلے ہوئی۔ اس پلاننگ میں محمد بن زاید(ابوظبی کا ولی عہد)، جنرل شاول موفاز(سابق اسرائیلی وزیر دفاع)، محمد دحلان کے علاوہ علی عبد اللہ صالح شریک تھے۔ ان سب کے علاوہ مقتول یمنی صدر صالح کے بیٹے احمد علی عبد اللہ صالح نے اس میٹنگ میں خصوصی شرکت کی۔

۲۔ ساری  پلاننگ ابوظبی میں ہوئی، جس میں انقلاب کی ساری تفصیلات محمد بن زاید کی طرف سے طے کی گئیں۔ اس کے بعد مزید میٹنگس کے لیے سقطری کےخوبصورت جزیرے کا انتخاب کیا گیا جسے سابق یمنی صدر عبد ربہ منصور نے اماراتیوں کو بیچا تھا۔ اس جزیرے میں لگ بھگ ۹ دفعہ ان کی میٹنگز ہوئیں، جن میں جنوبی یمن میں تعینات اماراتی آفیسرز کے علاوہ اسرائیلی آفیشلز نے بھی شرکت کی جن کے نام شاوول موفاز نے دئیے تھے۔

۳۔ پلاننگ کے تحت علی عبد اللہ صالح کے قریبی ۱۲۰۰ ساتھیوں کو عدن کے شہر میں موجود اماراتی فوجیوں کے اڈے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کاصنعاء کے  انقلاب میں اہم کردار ہونا تھا اور ان کا تعلق علی عبد اللہ صالح کی پارٹی سے نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سابق اسرائیلی فوجی آفیسرز نے بھی ٹریننگ دی۔

۴۔ صنعاء اور اس کے اطراف میں ۶ ہزار لوگوں کو الگ سے ٹریننگ دینےکے لیے بجٹ منظور کیا گیا۔  محمد بن زاید کے  کنٹرول روم نےفروری سے لے کر جون ۲۰۱۷ تک، علی عبد اللہ صالح کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے،  تقریبا ۲۹۰ ملین ڈالرز عدن سے صنعاء منتقل کئے۔یہ اس ۱۰۰ ملین ڈالرز کے علاوہ ہے جو اگست اور اکتوبر کے مہینے میں علی عبد اللہ صالح کو دئیے گئے۔

۵۔ طے پایا کہ ۲۴ اگست ۲۰۱۷ کو انقلاب کرنا ہے۔ لیکن اماراتی اور اسرائیلی آفیسرز نے بعد میں انقلاب کو آگے کی کسی تاریخ تک موخر کر دیا۔ اس کی  پہلی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ صالح کےلوگ ابھی مکمل تیار نہیں ہوئے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار اللہ کے حوثیوں تک اس پلاننگ کی خبر پہنچ چکی تھی، لہذا انہوں نے دار الحکومت اور اس کے اطراف میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا۔

۶۔ جو آفیسرز  اس پلاننگ میں شامل تھے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ دار الحکومت صنعاء اور اطراف میں ۸ ہزار لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے ۔ اس مقصد کے لیے مقامی ٹرینرز کے علاوہ، داعش سے بھاگے ان سولہ افراد سے بھی مدد لینے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت عدن میں موجود تھے  جو جنگی امور اور امداد میں ماہر تھے۔ان سب کے علاوہ چار سابق اسرائیلی آفیسرز بھی تھے جو اماراتیوں کی مدد سے علاقے میں پہنچے تھے۔

۷۔ دار الحکومت صنعاء کے  ۴۹ خفیہ مقامات پر اسلحہ چھپایا گیا تاکہ انقلاب کے وقت افراد کے درمیان ضرورت کے تحت تقسیم کیا جا سکے۔ کس وقت انقلاب کا آغاز ہو نا ہے وہ سب سے چھپا کررکھا گیا تاکہ انصار اللہ کو سرپرائز دیا جا سکے اور مقابلے میں وہ لوگ فوری طور پر کوئی دفاعی قدم نا  اٹھا سکیں۔ یہ پلاننگ انتہائی احتیاط کے ساتھ ، بہت زیادہ سوچ وبچار  سےکی گئی ۔ فنی اور  دفاعی حوالے سےیہ  ایک مکمل منصوبہ تھا۔

۸۔ یہی وجہ تھی کہ علی عبد اللہ صالح  ۳ دسمبر ۲۰۱۷ تک انصار اللہ کے سامنے لچک دکھانے کو تیار نہ تھے، چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اسلحے کی اور لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ۶ گھنٹے میں دار الحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ جب انصار اللہ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہا، تو انہوں نے مذاکرات کرنے والوں سے کہا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف  انقلاب سے باز آئیں۔ اگر اس بات کو نہیں مانتے تو ہم صنعاء اور اس کے اطراف کو صرف ۳ گھنٹوں  میں اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور پھر ۲ اور ۳ دسمبر کو یہی کچھ ہوا۔

۹۔ جب صنعاء میں حالات علی عبد اللہ صالح کے بالکل خلاف ہوگئے ، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس حوالے سےاپنے بیٹے کے ذریعے متحدہ عرب امارات  کے ساتھ پہلے سے ہماہنگی کی گئی۔ جب علی عبد اللہ صالح  کا قافلہ صنعاء سے نکلا تو  امارات کے جنگی جہاز ان کی فضائی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھے۔اس قافلے میں صالح کی بکتر بند گاڑی کے علاوہ تین بکتر بند گاڑیاں آگے اور تین پیچھے حفاظت پر مامور تھیں۔ ان کے علاوہ جدید اسلحےسے لیس مختلف ٹیوٹا  پک اپس بھی ساتھ ساتھ حفاظت کی خاطر چل رہی تھیں۔

۱۰۔ سعودی اتحاد نے صنعاء سے لے کر سنحان تک صالح کے راستے میں آنے والے انصار اللہ کے  ۱۲ مختلف  چیک پوسٹس پر فضائی حملے کئے۔صالح سنحان جا رہا تھا۔ سنحان پہنچنے سے پہلے ، مآرب کے راستے  میں انصار اللہ اور قبائل کے مجاہدین کمین لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قافلے پر ٹینک شکن میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے حملہ کیا گیا۔  ان کی کوشش تھی کہ علی عبد اللہ صالح کو زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔

۱۱۔ سعودی اتحاد کے طیاروں نے بھی اسی جگہے پر بمباری شروع کر دی تاکہ انصار اللہ کے مجاہدین کو عبد اللہ صالح کو گرفتار کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انہیں ڈر تھا اگر صالح گرفتار ہوا تو امارات، سعودی عرب اور اسرائیل کی اس سازش سے پردہ اٹھ جائے گا۔ پس در حقیقت عبد اللہ صالح کو مارنے کا فیصلہ سعودی اتحاد کی طرف سے ہوا تاکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے براہ راست عسکری تعاون پر پردہ پڑا رہے۔

یمن جنگ کے حوالے سے مزید حیرت انگیز خبروں کے منتظر رہیں جہاں انصار اللہ کے چند ہزار مجاہدین نےاپنی حکمت، ذہانت اور جنگی ٹیکنیک کے ذریعے تمام عالمی طاقتوں کی ناک میں نکیل ڈالا ہوا ہے۔

+ لکھاری عباس حسینی در 5 Dec 2017 و ساعت 23:56 |
امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 120 تاريخ : دوشنبه 11 دی 1396 ساعت: 0:06