چھوٹے عمل کے بدلے عظیم اجر اور ثواب کیسے ممکن ہے؟

ساخت وبلاگ

چھوٹے عمل کے بدلے عظیم اجر اور ثواب کیسے ممکن ہے؟

 

ایک سوال جو ہمیشہ ذہن میں اٹھتا ہے اور یقینا آپ کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا ہوگا وہ شریعت میں بیان ہوئی وہ عظیم اجر اور ثواب کی باتیں ہیں جو بظاہر ایک چھوٹے سے عمل کے حوالے سے معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ مثلا کہا جاتا ہے قرآن کی یہ سورت پڑھ لیں تو اتنے حج کا ثواب ہے۔ فلاں عمل کر لیں تو اتنی زیارتوں کا ثواب ہے۔ فلاں زیارت کا ثواب اتنے حج کے برابر ہے۔ فلاں عمل ایسا ہے جیسے اس نے ہزار غلام آزاد کئے ہوں۔ وغیرہ

اس اشکال کے جواب میں:

۱۔ اگر ایک عمل ہماری نظیر میں حقیر ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ خداوند متعال کی نظر میں بھی ایسا ہی ہو۔ ہم اعمال کی باطنی اور ملکوتی شکلوں اور حقائق سے جاہل ہیں۔ عین ممکن ہے ایک عمل جسے ہم حقیر سمجھ رہے ہوں وہ باطن اور ملکوت میں بہت عظیم عمل ہو۔ ان حقائق سے صرف وہی خبر دے سکتے ہیں جو ان عوالم پر دسترسی رکھتے ہوں اور ان سے آگاہ ہوں۔

۲۔ خداوند متعال کے ہاں ثواب اور جزا کا نظام استحقاق کی بنیاد پر نہیں بلکہ رحمت اور فضل کی بنیاد پر ہے۔ جس طرح خدا کی ذات نامتناہی ہے اسی طرح اس کے فضل وکرم کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ کتنی ہی نعمتیں ایسی ہیں جو خدواند متعال نے انسانوں کو استحقاق کے بغیر بن مانگے عطا کی ہیں۔ اعمال کے ثواب اور جزا کے حوالے سے بھی خداوند متعال اپنے فضل اور کرم سے جسے جتنا چاہیے عطا کر سکتا ہے۔ مثلا جنت کے بارے میں معتبر روایات میں آیا ہے وہاں انسان جس چیز کی خواہش کرے گا وہ اسے مل جائے گی۔

۳۔ وہ روایات جو مختلف اعمال سے متعلق عظیم ثوابوں کو بیان کرتی ہیں ایک دو یا دس بیس نہیں بلکہ تواتر کی حد سے بھی زیادہ ہیں۔ گویا ایسے ہی جیسے ہم ان روایات کو اپنے کانوں سے معصومین علیہم السلام کی مبارک زبانوں سے سن رہے ہوں۔ ایسے میں ان روایات کا انکار آسان نہیں اور ان کی تاویل بھی ممکن نہیں۔

4۔ ان ثوابوں کا بیان دلیل اور برہان کے خلاف بھی نہیں بلکہ ان کی تائید میں دلیل لائی جا سکتی ہے۔ پس معصومین علیہم السلام کے اقوال کے سامنے انسان کا سر تسلیمِ خم ہونا چاہیے۔ ایسے بہت سارے حقائق ہیں جن تک انسانی عقل کی رسائی نہیں اور صرف وحی کے راستے ہم وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔

5۔ فرض کریں کوئی انسان ان روایات کی اسناد میں شک کرتا ہے، حالانکہ شک کی کوئی گنجائش نہیں، تب وہ قرآن کی ان آیات کا کیا کریں گے جن میں بعض اعمال کے بدلے بہت زیادہ ثواب اور اجر کی بات کی گئی ہے۔ مثلا شب قدر کی ایک رات کو ہزار مہینوں کے برابر نہیں بلکہ ان سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ یا مثلا کہا گیا جو راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اس کی مثال گندم کے اس دانے کی طرح ہے جس سے سات سو دانے نکلتے ہیں۔ اور پھر کہا گیا خدا جسے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔

ایک انسان جو پچاس ساٹھ سال کی عمر پاتا ہے، فرض کریں اس نے تمام واجبات اور محرمات کا خیال رکھا اور اس کے بعد صالح اعمال، نیک ایمان اور توبہ کے ساتھ وہ اس دنیا سے جاتا ہے، دنیاوی حساب و کتاب کے مطابق اس کی جزا کتنی ہونی چاہیے؟ جبکہ کتاب وسنت اور ادیان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شخص بہشتِ موعود میں جائے گا اور نامتناہی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے بہرہ مند ہوگا۔ ایک ایسا مقام جس کی کوئی انتہا اور خاتمہ نہیں ہے۔ کیا اس بات کا کوئی انکار کر سکتا ہے؟ اگر یہاں عمل اور اس کی جزا انسانی عقل کے مطابق طے ہونا ہو تو جتنا زیادہ فرض کر لیں محدود ہی فرض ہوگا۔

پس معلوم ہوا ثواب وجزا کا پیمانہ اور معیار کچھ اور ہے۔ ایسے میں اس طرح کی روایات کا انکار نہیں کرنا چاہیے جہاں لسانِ وحی سے ان حقائق کا بیان ہم تک پہنچا ہو۔

 

استفادہ از بیانات حضرت امام خمینی (قدس سره)

شرح چھل حدیث، حدیث 29

سید عباس حسینی

+ لکھاری عباس حسینی در 28 Apr 2022 و ساعت 15:26 |

امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت...
ما را در سایت امام تقی علیہ السلام اور چھوٹی عمر کی امامت دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : abbashussaini بازدید : 107 تاريخ : شنبه 11 تير 1401 ساعت: 15:45